ضلع جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا کے ڈیڑھ لاکھ سے زاید آبادی کے لئے واحد ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں بجلی سے لیکر رہائشی مکانات تک کی تمام سہولیات سے مستحق لوگ اور مریض محروم ہیں جبکہ ہسپتال کی سہولیات نجی کاروباری افراد کو فراہم کی جا رہی ہیں۔ اس بندر باٹ میں ہسپتال کے اعلیٰ افسران سے لیکر جونئیر سٹاف تک سب شامل ہو کر اپنے اپنے فوائد حاصل کر رہے ہیں۔
اعلی سرکاری اداروں اور انتظامیہ کی ناک تلے جاری ان غیر قانونی سرگرمیوں کے بارے میں عام لوگوں کی طرف سے خدشات کے اظہار کے بعد جب ہم نے معلوم کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ ہسپتال میں مریضوں کے لئے نہ سہولیات میسر ہیں اور نہ سٹاف حاضر ہوتا ہے۔
ڈسٹرکٹ ہسپتال وانا میں موجود سٹاف بالخصوص ڈکٹرز صرف دو گھنٹے ڈیوٹی کرنے آجاتے ہیں۔ ہسپتال میں موجود ڈیوٹی آورز کے مطابق او پی ڈی، وارڈز، او ٹی اور دوسرے شعبہ جات دن کے 10 سے لیکر 12 بجے تک مریضوں کیلئے کھلے ہوتے ہیں۔ وہاں کا دورہ کرنے کے بعد پتہ چلا کہ وارڈز اور دوسرے شعبہ محض دو گھنٹے بعد بند کر دیے جاتے ہیں۔

باخبر ذرائع نے بتایا کہ زچہ بچہ کے کیسز کے لئے فیمیل گائنا کالوجسٹ دو سال سے غیر حاضر ہے، وہ چار مہیںنوں میں چار پانچ دنوں کے لئے آجاتی ہے اور پھر واپس چلی جاتی ہے۔ ہمارے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کی جگہ ایک اور جنرل سرجن کبھی کبھار کام کرتا ہے جو اس کی ڈیوٹی نہیں ہے۔
ہسپتال میں ایک لیڈی ہیلتھ ورکر ایسی بھی ہے جو سات سال سے زیادہ عرصہ سے اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر ہے اور اپنی تنخواہ گھر پر بیٹھ کر لیتی ہے۔ واضح رہیں کہ سکولوں اور ہسپتالوں میں ڈیوٹی پر معمور خواتین عموماَ مقامی با اثر افراد یا قبائلی سرداروں کا خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جو انتظامیہ کی مدد سے گھروں پر بیٹھ کر تنخواہیں لیتی ہیں۔
ذرائع کا کہنا کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے سابقہ ایم ایس ظفر علی چار سال پہلے ریٹائرڈ ہوئے ہیں لیکن وہ تاحال ہسپتال کے سرکاری بنگلے پر قابض ہیں جہاں وہ اپنے خاندان سیمت رہتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف مقامی افراد یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ موجودہ ایم ایس جناہزیب داوڑ کسی بڑی شخصیت کی بیوی کی جگہ بطور ایم ایس کام کرتے ہیں۔ ان کا کئی بار یہاں سے تبادلہ ہوا ہے لیکن ہر بار واپس آجاتے ہیں۔
ہسپتال میں فیمیل نرسیز کی جگہ غیر تربیت یافتہ لڑکے کام کرتے ہیں۔ ہمارے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک نرس ایک سال سے زیادہ غیر حاضر ہے اور اس کی جگہ ایک عام لڑکا کام کرتا ہے۔ ایک اور فیمیل نرس بھی ایک سال سے زیادہ عرصے سے غیر حاضر ہے۔ اس کا بیٹا اور اس کا خاندان ہسپتال کے دو سرکاری کوارٹرز پر قابض ہیں۔ زچگی کے کیسیز کے دوران ان نرسیز کی غیر موجودگی میں غیر متعلقہ مرد حضرات ڈیوٹی دینے کے لئے آجاتے ہیں جو نہ قانونی طور پر درست ہے اور نہ پیشہ ورانہ طور پر صحیح ہے۔ اور زچہ بچہ کے لئے بھی خطرناک ہوتا ہے۔
ہسپتال کے ایک اور سٹاف ممبر پیر معین الدین کا پانچ سال پہلے فوت ہو چکا ہے لیکن اس کے سرکاری کوارٹر میں ابھی تک ان کے لوگ رہ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کے کئی دوسرے کوارٹرز میں بھی باہر کے لوگ غیر قانونی طور پر رہائش پذیر ہیں۔ کئی کوارٹرز کا ایم ایس صاحب کرایہ لیتے ہیں اور کئی بااثر افراد کی سفارش پر یا اقرباء پروری کی بنیاد پر ہسپتال کے املاک پر قابض ہیں۔ ہسپتال کے کئی کوارٹرز نشیوں کی آماجگاہیں بن چکی ہیں۔

مزید بر آں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں روزانہ 15 گھنٹے سے زائد کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ ہسپتال کے لئے سرکاری طور روزانہ کم از کم چھ گھنٹے بجلی لازمی دینی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں ہسپتال وانا گریڈ سٹیشن کے ساتھ ہی واقع ہے۔ تا ہم ہمارے ذرائع کے مطابق ہسپتال کی بجلی نجی کاروبار کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ وانا میں موجود برف بنانے کی فیکٹریز اور ملز کو پیسوں پر دی جاتی ہے۔بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہسپتال کے تمام تر کام بند پڑے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف آکسیجن گیس اور وینٹیلیٹرز بھی مریضوں کے لئے دستیاب نہیں جبکہ کورونا کے کیسیز وہاں بھی سامنے آتے ہیں۔ حکومت نے آکسیجن پلانٹ کے قیام پر کروڑوں روپے خرچ کیے تھے لیکن اب وہ سب کچھ برائے نام رہ گیا ہے۔ ہسپتال میں موجود آکسیجن گیس کے سیلنڈرز ناقابل استعمال اور پلانٹ غیر فعال ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں ایکسرے، الٹرا ساؤنڈ وغیر ہ تک دستیاب نہیں، اگر ہیں وہ یا تو غیر فعال ہیں یا پھر سٹاف کی عدم موجودگی کی وجہ سے بند ہوئے پڑے ہیں۔ اگر ہسپتال میں مریضوں کے لئے ایکسرے یا الٹرا ساؤنڈ کی ضرورت پڑ جاتی ہیے تو مجبوراَ باہر کے کسی نجی لیباریٹری سے کرانا پڑے گا۔
وانا سب ڈویژن کا واحد ہیڈ کوارٹر ہسپتال جس پسماندگی کا شکار ہے اس بارے نہ ہسپتال کے منتظمین جواب دینے پر راضی اور نہ مقامی انتظامیہ کوئی دلچسپی لے رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جب مقامی انتظامیہ اے سی اور ڈی سی ساؤتھ وزیرستان کو ان غیر قانونی سرگرمیاں اور بدعنوانیاں رپورٹ کرتے ہیں تو وہ اپنی بے بسی کا اظہار کر کے چپ اختیار کرتے ہیں۔ ان کی اصل بے بسی کیا ہے، اس کا کسی کو علم نہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کی اس زبو حالی اور سہولیات اور سٹاف کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہاں کے لوگ اکثر اپنے مریضوں کو علاج کی خاطر یا تو وانا میں موجود پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ کر لیتے ہیں یا پھر ملک کے دوسرے شہروں میں موجود ہسپتالوں میں لے جاتے ہیں۔