"اس ملک کی عزت ہماری عزت ہے اور اس ملک کی عزت کے لئے جان کی قربانی بھی دے سکتے ہیں۔” یہ تھے جو امریت کو مسلسل للکار رہے تھے۔ جو دشمن کے دل و دماغ پر ہتھوڑے بن کر برس رہے تھے۔یہ الفاظ ہر محب وطن کو ایک نیا حوصلہ دے رہے تھے، جمہوریت کے کمزور اور بے جان جسم میں مسلسل روح پھونک رہے تھے ، یہ وہی الفاظ تھے جنہیں سچ ہوتے ہوئے چشمِ فلک نے دیکھا اور یہ اس دخترِمشرق کے لفاظ تھے جسے اب دنیا بے نظیر بھٹو شہید کے نام سے جانتے ہیں۔
آمریت کو للکارنے والی یہ آواز تو اب خاموش ہوچکی ہے لیکن اس کی گونج اب بھی کراچی سے خیبر تک سنائی دیتی ہے اور آج بھی بی بی شہید کی قبر سے اٹھ کر آمریت کو للکارتی ہے۔
بے نظیر بھٹو شہید جمہوریت کے لئے جان سے گزر گئیں اور وطن عزیز کے استحکام کے لئے قربان ہو گئیں۔نہ صرف بی بی بلکہ بھٹو خاندان نے پے در پے قربانیاں دی ہیں اس ملک کے لئے۔
قربانیوں کا یہ سلسلہ اس وقت شروع ہو جاتا ہے جب ذوالفقار علی نامی ایک وکیل اور استاد نے سیاست کے میدان میں قدم رکھ کر اور سیاست کی ایک ایک سیڑھی چڑھ کر 30 نومبر 1967 ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے اپنی ایک سیاسی جماعت قائم کی۔ برکلے کالج کیلیفورنیا اور آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کنے والے اس نوجوان وکیل کو تب شائد یہ معلوم نہیں تھا کہ آگے جا کر اس نے کیا تاریخ رقم کرنی ہے۔ اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ آنے والی نسلیں اسے بھٹو شہید اور اس کی بیٹی کو بی بی شہید کے نام سے یاد رکھیں گی۔ یہ معلوم نہیں تھا کہ جس ملک میں اس نے سیاسی میدان میں قدم رکھے ہیں اس ملک میں جمہوریت کا نعرہ لگانے والا سولی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ اسے یہ نہیں تھا پتا کہ جمہوریت کا ہی نعرہ لگانے والی بنت حوا دخترِ مشرق بن جائے گی اور پھر اسی دخترِ مشرق کو جمہوریت اور انسانیت کے دشمن خاک و خون میں تڑپا دیں گے۔
ذوالفقار علی بھٹو 1953ء میں وکالت اور تدریس سے وابستہ ہوگئے لیکن سیاست ان کی نس نس میں بس چکی تھی، وہ بھی ایک ایسی دھرتی پر جہاں سیاست کا انجام ہمیشہ المناک ہوتا ہے، جہاں حقیقی سیاست کرنے والے ہمیشہ پابندِ سلاسل ہوتے ہیں، جہاں وکلاء کو زندہ جلا دیا جاتا ہے، جہاں صحافی اور اساتذہ پولیس کے ڈنڈے کھا رہے ہوتے ہیں، منتخب وزرائے اعظم کو جلا وطنی پر مجبور کیا جاتا ہے۔۔۔ یقیناََ وہ اس بھیانک صورحال سے نا آشنا تھے ، ان حقائق کا ان کو نہیں تھا پتا جو آج وطن عزیز کی روح کو تارتار کرتے جارہے ہیں۔
بس وہ آئے اور سیاست میں کھود پڑے ۔ آغاز سے انہوں نے وزارتِ داخلہ کا قلمدان تھام کر سیاست کی ایک ایک سیڑھی چڑھ کر بالآخر وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی بن گئے۔ پھر وہ غریبوں اور ناداروں کے لئے مسیحا بھی بنے، پھر وہ ہاریوں کا سہارا بھی بنے اور پھر وہ "قائدعوام” بھی بنے۔لیکن وقت کے طالع آزما نے عوام کے اس محبوب قائد کو نہیں چھوڑا۔
جنرل ضیاء الحق اقتدار کی ہوس لے کر ذوالفقار علی بھٹو کو ہٹا کر خود اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوئے اور قائدِعوام کو تختہِ دار پر لٹکا کر شہید کر دیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے اسلام کا نعرہ لگایا ، امریکہ کے ہاتھوں خوب استعمال ہوئے اور جہاد افغانستان کی شکل میں ایک ایک ایسا زخم اپنایا جس سےآج بھی خون رستا ہے۔ اس ضیاء الحق کی آمریت کی پیداوار آج کی برسرِ اقتدار وہ سیاسی جماعتیں بھی ہیں جنہوں نے پاکستان کی بدقسمت عوام کی اربوں اور کھربوں دولت لوٹ کر باہر بھیجی اور بھج رہے ہیں۔ تاہم خود بھی ایک ایسی عبرتناک موت کا شکار ہوئے جو آج تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔
پاکستان کے استحکام و ترقی پر قربان ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو شہید کے آنگن میں حوا کی ایک بیٹی پروان چڑھ گئی جس کا بچپن خوشحالی سے گزرا، والد صاحب کی طرح آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ سے ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ آکسفورڈ سٹوڈنٹس یونین کی پہلی ایشیائی اور پہلی خاتون صدر کا اعزاز بھی اسی شہزادی کو حاصل ہوا۔ یہ دختر ِ پاکستان بے نظیر بھٹو کے نام سے ایک پرکشش سیاسی شخصیت ابھر کر سامنے آئی۔
بے نظیر بی بی نے ابھی تعلیم مکمل کی تھی کہ ان کے والد اور قائد عوام کو آمریت کے شکنجوں نے سولی پر چڑھا دیا۔ پھر ہونا کیا تھا، بھٹو خاندان کے لئےمصائب اور امتحانات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا۔ بی بی شہید نے اپنی والدہ (مرحومہ) سے ملکر سیاسی جدوجہد شروع کی۔ جبکہ ان کے دو بھائیوں نے بغاوت کی راہ لی، جس سے بھٹو خاندان اندرونی اختلافات کا شکار ہوا، لیکن بی بی شہید نے ہمت کی اور لڑنے کے لئے تیار ہوگئی۔ وہ جلا وطنی سے رو بہ رو ہوئیں اور بیرون ملک سے عنان جماعت سنبھال لیا۔
بے نظیر بھٹو شہید بیرون ملک اچھے دنوں کے خواب دیکھتی رہیں۔ انہی خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے 1986ء وطنِ عزیز آگئیں اور چھا گئیں۔ ان کے آنے کے کچھ عرصہ بعد ہی اپنے چھوٹے بھائی شاہنواز بھٹو کی پراسرار موت کے صدمے سے دو چار ہوئیں جو کہ فرانس میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔
بہ ہر حال قائد عوام کی بیٹی کو وطن واپسی پرر 20 لاکھ سے زائد وفاداروں نے خوش آمدید کہا۔ شائد بی بی کو یہ معلوم تھاکہ وہ کانٹوں بھرے راستے ہر نکل پڑی ہیں لیکن شائد یہ نہیں معلوم تھا کہ وطنِ عزیز کے لئے ان کی سیاسی جدوجہد اب انہی کی قربانی مانگ رہی تھی۔
پھر دنیا نے دیکھا کہ دخترِ بھٹو شہید 1988ء کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالمِ اسلام کی پہلی خاتون سربراہِ مملکت بن گئیں۔ پھر وہ قائدِ عوام کی دختر، "دخترِ مشرق” بھی بن گئیں۔ لیکن یہ دور بھی ان کے لئے امتحانات اور قربانیوں کا دور ثابت ہوا۔ سیاست میں نشیب و فراز آتے رہیں، وقت کے طالع آزما ان کے بھی پیچھے پڑ گئے اور ان کی حکومت کو پنپنے نہیں دیا گیا۔ محض دو سال بعد اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو برطرف کر کے ان کی حکومت ہٹا دی۔
‘دخترِ مشرق’ نے ہمت نہیں ہاری اور یوں 1993ء میں دوبارہ سیاسی میدان میں کامیابی حاصل کر کے وزیراعظم پاکستان بن گئیں۔ مگر مشکلات ان کا پیچھا کرتی رہیں۔انہی کی حکومت میں ان کے بڑے بھائی مرتضیٰ بھٹو کراچی میں پولیس کے ہاتھوں شہید ہوئے اور یوں بھٹو خاندان کی قربانیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ابھی وہ بڑے بھائی کے جدا ہونے کے صدمے سے نہیں نکلی تھی کہ انہی کے منتخب کردہ صدر فاروق احمد خان لغاری نے ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ایک بار پھر دختر مشرق جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئیں ۔
بی بی دس برس تک جلا وطنی کے زخم کھاتی رہیں اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کو سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا۔ یہ وہ دس برس تھے جن میں ہم کارگل کھو چکے، جن میں پاکستانی عوام ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے پر تل گئے۔ بے نظیر بھٹو کے بعد آنے والی نوازشریف کی حکومت کو بھی جنرل مشرف کی آمریت ڈھیر کر چکی تھی۔ انہی دس برسوں میں قبائلی علاقوں میں بم اور میزائل برسا کر معصوم جانوں کے خون سے کئی کھیل کھیلے گئے، عدلیہ سے آزادی چھین لی گئی، گل و یاسمین کا شہر اسلام آباد کو گولیوں سے چھلنی کیا جاتا رہا، سیاسی ، سماجی اور مذہبی رہنماؤں کو چن چن کر شہید کیا جاتا رہا اور وطن عزیز ہر طرف سے زخموں سے چور چور کیا گیا۔
پے در پے مصائب و مشکلات اور ملک کے خراب حالات دختر مشرق بے نظیر بھٹو کو اند ر سے مضبوط بنا رہے تھے۔ دس برس ان کی آواز دیار غیر میں گونجتی رہی۔ اس دوران 2002ء کے عام انتخابات میں ان کی پاکستان پیپلز پارٹی سب سے بڑی سیاسی جماعت ابھر کر سامنے آئی اور مشرف کی امرانہ حکومت میں اپوزیشن میں بیٹھ گئی۔
بالآخر 18 اکتوبر، 2007ء کو جمہوریت کے بے جان جسم کو ایک ئی طاقت دینے دخترِ مشرق نے سرزمینِ پاکستان پر ایک بار پھر قدم رکھا۔ کراچی میں ایک فقیدالمثال استقبال کے ساتھ ان کے آخری دور کا آغاز ہوگیا۔ پاکستان آنے سے قبل 16 اکتوبر کو انہوں نے اپنی وصیت لکھی تھی ، شائد ان کو پہلے سے بہتر اندازہ تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کے لئے لڑنا اپنی جان کو داؤ پر لگانا ہے۔ ان کو معلوم ہوچکا تھا کہ اب ہر قدم پر انہیں وقت کے طالع آزماؤں کا سامنا کرنا تھا۔ 18 اکتوبر کو آتے ہی بی بی کو ڈیڑھ سو سے زائد جیالوں کی لاشوں سے استقبال کیا گیا۔ گو کہ ان کو خبردار کیا گیا کہ اب اگلی قربانی ان کی چاہیے تھی۔
ان کے جیالوں کی شہادت شائد ان کے لئے ایک پیغام تھا کہ یہاں جمہوریت کے پاسداران کبھی سر اٹھا کے نہیں چل سکتے۔یہ ایک پیغام تھا بی بی اور ہر محبِ وطن جمہوریت پسند کے لئے بھی کہ جمہوریت بے جان ہی سہی لیکن اس میں جان ڈالنے والے خود جان سے گزرجاتے ہیں۔ مگر ان کے حوصلے یہ قربانیاں بھی پست نہ کر سکیں۔
اس بار دختر مشرق وطن عزیز کے لئے قربان ہونے کی آرزو دل میں لے کر آئی تھیں۔ اس ملک کے استحکام کے لئے تمام کشتیاں جلا کر آئی تھیں۔ وہ چاروں صوبوں کی زنجیر بن کر آئیں اور وہ وفاق کی علامت بن آئیں۔ پھر واقعی جمہوریت میں جان پڑ گئی، پھر انہوں نے حقیقت میں وقت کے طالع آزماؤں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولنے لگیں اور وہ عوام کے در در پر دستک دینے لگیں۔ خطرات ان کے گرد منڈلاتے رہیں اور خود بھی بار بار جنرل مشرف کی آمر حکومت سے سیکورٹی کی درخواست کرتی رہیں۔
آخرکار وہ راولپنڈی میں "کمپنی باغ” آگئیں، وہ کمپنی باغ جہاں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان بھی قاتل کی گولیوں کا نشانہ بنے تھے۔ اور کمپنی باغ کو "لیاقت باغ” بنا کر گئے۔
27 دسمبر، 2007ء کو قربانی کے جذبے سے سرشار دخترِ مشرق لیاقت باغ پہنچ گئیں اور عوام سے چیخ چیخ کر اپنے خاندان کی قربانیاں یاد دلا دلا کر وطن عزیز کے استحکام کے لئے کام کرنے کی اپیل کر رہی تھیں اور اپنے شہید باپ کی صدائیں لگاتی رہیں۔ پھر وہ بے خوف ہو کر لیاقت باغ سے نکلیں اور اپنی گاڑی کے سن روف نکل کر اپنے وفاداروں اور جیالوں کے جذبے کو سلام کرنے نظر آئیں۔ انہی وفاداروں اور جیالوں میں وہ انسانیت کا دشمن قاتل بھی کہیں موجود تھا جس نے اگلے ہی لمحے پے در پے گولیاں چلا کر دخترِ مشرق کو اپنی گاڑی میں ڈھیر کردیا۔
یوں بے نظیر بھٹو نے بھی پاکستان اور پاکستان میں جمہوریت کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا۔ وہ دلیر تھیں، انہوں نے کسی خوف و خطر کو خاطر میں نہیں لایا اور اپنے شہید والد کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتی تھیں۔ اسی جدوجہد میں دختر مشرق اپنی جان سے گزر گئیں۔ ان کی جدائی پر ہمالیہ رو رہا تھا، پاکستان رو رہا تھا۔ بلاشبہ وہ وطن عزیز کی سالمیت اور جمہوریت پر قربان ہوگئیں۔ ان کا خاندان شہیدوں کا خاندان ہے جس کے شہیدوں اور ان کی قربانیوں کو کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا۔
مرے چارہ گرکو نوید ہو، صفِ دشمناں کو خبر کرو
و ہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا
جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم — — تجھے یاد گار بنا دیا